اذن عام

 اذن عام


    یعنی مسجد کا دروازہ کھول دیا جائے کہ جس مسلمان کا جی چاہے آئے کسی کی روک ٹوک نہ ہو، اگر جامع مسجد میں جب لوگ جمع ہو گئے دروازہ بند کر کے جمعہ پڑھا نہ ہوا۔ (2) (عالمگیری) 
    مسئلہ ۳۳: بادشاہ نے اپنے مکان میں جمعہ پڑھا اور دروازہ کھول دیا لوگوں کو آنے کی عام اجازت ہے تو ہوگیا لوگ آئیں یا نہ آئیں اور دروازہ بند کر کے پڑھا یا دربانوں کو بٹھا دیا کہ لوگوں کو آنے نہ دیں تو جمعہ نہ ہوا۔ (3) (عالمگیری) 
    مسئلہ ۳۴: عورتوں کو اگر مسجد جامع سے روکا جائے تو اذن عام کے خلاف نہ ہو گا کہ ان کے آنے میں خوفِ فتنہ ہے۔ (4) (ردالمحتار) 
    جمعہ واجب ہونے کے ليے گیارہ شرطیں ہیں۔ ان میں سے ایک بھی معدوم ہو تو فرض نہیں پھر بھی اگر پڑھے گا تو ہوجائے گا بلکہ مرد عاقل بالغ کے ليے جمعہ پڑھنا افضل ہے اور عورت کے ليے ظہر افضل، ہاں عورت کا مکان اگر مسجد سے بالکل متصل ہے کہ گھر میں امام مسجد کی اقتدا کر سکے تو اس کے ليے بھی جمعہ افضل ہے اور نابالغ نے جمعہ پڑھا تو نفل ہے کہ اس پر نماز فرض ہی نہیں۔ (5) (درمختار، ردالمحتار)

    (۱) شہر میں مقیم ہونا 
    (۲) صحت یعنی مریض پر جمعہ فرض نہیں مریض سے مراد وہ ہے کہ مسجد جمعہ تک نہ جاسکتا ہو یا چلا تو جائے گا مگر مرض بڑھ جائے گا یا دیر میں اچھا ہوگا۔ (6) (غنیہ) شیخ فانی مریض کے حکم میں ہے۔ (7) (درمختار)

    مسئلہ ۳۵: جو شخص مریض کا تیماردار ہو، جانتا ہے کہ جمعہ کو جائے گا تو مریض دِقتوں میں پڑ جائے گا اور اس کا کوئی پرسانِ حال نہ ہوگا تو اس تیماردار پر جمعہ فرض نہیں۔ (8) (درمختار وغيرہ)
    (۳) آزاد ہونا۔ غلام پر جمعہ فرض نہیں اور اس کا آقا منع کر سکتا ہے۔ (1) (عالمگیری)

    مسئلہ ۳۶: مکاتب غلام پر جمعہ واجب ہے۔ يوہيں جس غلام کا کچھ حصہ آزاد ہو چکا ہو باقی کے ليے سعایت کرتا ہو یعنی بقیہ آزاد ہونے کے ليے کما کر اپنے آقا کو دیتا ہو اس پر بھی جمعہ فرض ہے۔ (2) (عالمگیری، درمختار) 
    مسئلہ ۳۷: جس غلام کو اس کے مالک نے تجارت کرنے کی اجازت دی ہو یا اس کے ذمہ کوئی خاص مقدار کما کر لانا مقرر کیا ہو اس پر جمعہ واجب ہے۔ (3) (عالمگیری) 
    مسئلہ ۳۸: مالک اپنے غلام کو ساتھ لے کر، مسجد جامع کو گیا اور غلام کو دروازہ پر چھوڑا کہ سواری کی حفاظت کرے تو اگر جانور کی حفاظت میں خلل نہ آئے پڑھ لے۔ (4) (عالمگیری) 
    مسئلہ ۳۹: مالک نے غلام کو جمعہ پڑھنے کی اجازت دے دی جب بھی واجب نہ ہوا اور بلااجازت مالک اگر جمعہ یا عید کو گیا اگر جانتا ہے کہ مالک ناراض نہ ہو گا تو جائز ہے ورنہ نہیں۔ (5) (ردالمحتار) 
    مسئلہ ۴۰: نوکر اور مزدور کو جمعہ پڑھنے سے نہیں روک سکتا، البتہ اگر مسجد جامع دور ہے تو جتنا حرج ہوا ہے اس کی مزدوری میں کم کر سکتا ہے اور مزدور اس کا مطالبہ بھی نہیں کرسکتا۔ (6) (عالمگیری)

    (۴) مرد ہونا 
    (۵) بالغ ہونا 
    (۶) عاقل ہونا۔ یہ دونوں شرطیں خاص جمعہ کے ليے نہیں بلکہ ہر عبادت کے وجوب میں عقل و بلوغ شرط ہے۔ 
    (۷) انکھیارا ہونا۔ (7)

    مسئلہ ۴۱: یک چشم اور جس کی نگاہ کمزور ہو اس پر جمعہ فرض ہے۔ يوہيں جو اندھا مسجد میں اذان کے وقت باوضو ہو
اس پر جمعہ فرض ہے اور وہ نابینا جو خود مسجد جمعہ تک بلا تکلّف نہ جا سکتا ہو اگرچہ مسجد تک کوئی لے جانے والا ہو، اُجرتِ مثل پر لے جائے یا بلا اُجرت اس پر جمعہ فرض نہیں۔ (1) (درمختار، ردالمحتار)

    مسئلہ ۴۲: بعض نابینا بلا تکلّف بغیر کسی کی مدد کے بازاروں راستوں میں چلتے پھرتے ہیں اور جس مسجد میں چاہیں بلا پُوچھے جا سکتے ہیں ان پر جمعہ فرض ہے۔ (2) (ردالمحتار)

    (۸) چلنے پر قادر ہونا۔

    مسئلہ ۴۳: اپاہج پر جمعہ فرض نہیں، اگرچہ کوئی ایسا ہو کہ اسے اٹھا کر مسجد میں رکھ آئے گا۔ (3) (ردالمحتار) 
    مسئلہ ۴۴: جس کا ایک پاؤں کٹ گیا ہو یا فالج سے بیکار ہوگیا ہو، اگر مسجد تک جا سکتا ہو تو اس پر جمعہ فرض ہے ورنہ نہیں۔ (4) (درمختار وغیرہ)

    (۹) قید میں نہ ہونا، مگر جب کہ کسی دَین کی وجہ سے قید کیا گیا اور مالدار ہے یعنی ادا کرنے پر قادر ہے تو اس پر فرض ہے۔ (5) (ردالمحتار) 
    (۱۰) بادشاہ یا چور وغیرہ کسی ظالم کا خوف نہ ہونا، مفلس قرضدار کو اگر قید کا اندیشہ ہو تو اس پر فرض نہیں۔ (6) (ردالمحتار) 
    (۱۱) مینھ یا آندھی یا اولے یا سردی کا نہ ہونا یعنی اسقدر کہ ان سے نقصان کا خوف صحیح ہو۔ (7)

    مسئلہ ۴۵: جمعہ کی امامت ہر مرد کر سکتا ہے جو اور نمازوں میں امام ہو سکتا ہو اگرچہ اس پر جمعہ فرض نہ ہو جیسے مریض مسافر غلام۔ (8) (درمختار) یعنی جبکہ سلطان اسلام یا اس کا نائب یا جس کو اس نے اجازت دی بیمار ہو یا مسافر تو یہ سب نمازجمعہ پڑھا سکتے ہیں یا انہوں نے کسی مریض یا مسافر یا غلام یا کسی لائق امامت کو اجازت دی ہو یا بضرورت عام لوگوں نے کسی ایسے کو امام مقرر کیا ہو جو امامت کر سکتا ہو، یہ نہیں کہ بطور خود جس کا جی چاہے جمعہ پڑھاوے کہ یوں جمعہ نہ ہوگا۔
    مسئلہ ۴۶: جس پر جمعہ فرض ہے اسے شہر میں جمعہ ہو جانے سے پہلے ظہر پڑھنا مکروہ تحریمی ہے، بلکہ امام ابن ہمام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: حرام ہے اور پڑھ لیا جب بھی جمعہ کے ليے جانا فرض ہے اور جمعہ ہو جانے کے بعد ظہر پڑھنے میں کراہت نہیں، بلکہ اب تو ظہر ہی پڑھنافرض ہے، اگر جمعہ دوسری جگہ نہ مل سکے مگر جمعہ ترک کرنے کا  گناہ اس کے سر رہا۔ (1) (درمختار، ردالمحتار) 
    مسئلہ ۴۷: یہ شخص کہ جمعہ ہونے سے پہلے ظہر پڑھ چکا تھا نادم ہو کر گھر سے جمعہ کی نیت سے نکلا اگر اس وقت امام نماز میں ہو تو نماز ظہر جاتی رہی، جمعہ مل جائے تو پڑھ لے ورنہ ظہر کی نماز پھر پڑھے اگرچہ مسجد دور ہونے کے سبب جمعہ نہ ملا ہو۔ (2) (درمختار) 
    مسئلہ ۴۸: مسجد جامع میں یہ شخص ہے جس نے ظہر کی نماز پڑھ لی ہے اور جس جگہ نماز پڑھی وہیں بیٹھا ہے تو جب تک جمعہ شروع نہ کرے ظہر باطل نہیں اور اگر بقصد جمعہ وہاں سے ہٹا تو باطل ہوگئی۔ (3) (درمختار، ردالمحتار) 
    مسئلہ ۴۹: یہ شخص اگر مکان سے نکلا ہی نہیں یا کسی اور ضرورت سے نکلا یا امام کے فارغ ہونے کے وقت يا فارغ ہونے کے بعد نکلا یا اس دن جمعہ پڑھا ہی نہ گیا یا لوگوں نے جمعہ پڑھنا تو شروع کیا تھا مگر کسی حادثہ کے سبب پورا نہ کیا تو ان سب صورتوں میں ظہر باطل نہیں۔ (4) (عالمگیری وغیرہ) 
    مسئلہ ۵۰: جن صورتوں میں ظہر باطل ہونا کہا گیا اس سے مراد فرض جاتا رہنا ہے کہ یہ نماز اب نفل ہوگئی۔ (5) (درمختار وغیرہ) 
    مسئلہ ۵۱: جس پر جمعہ فرض تھا اس نے ظہر کی نماز میں امامت کی پھر جمعہ کو نکلا تو اس کی ظہر باطل ہے مگر مقتديوں ميں جو جمعہ کو نکلا اس کے فرض باطل نہ ہوئے۔ (6) (درمختار) 
    مسئلہ ۵۲: جس پر کسی عذر کے سبب جمعہ فرض نہ ہو وہ اگر ظہر پڑھ کر جمعہ کے ليے نکلا تو اس کی نماز بھی جاتی رہی، ان شرائط کے ساتھ جو اوپر مذکور ہوئیں۔ (7) (درمختار)
    مسئلہ ۵۳: مریض یا مسافر یا قیدی یا کوئی اور جس پر جمعہ فرض نہیں ان لوگوں کو بھی جمعہ کے دن شہر میں جماعت کے ساتھ ظہر پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے، خواہ جمعہ ہونے سے پیشتر جماعت کریں یا بعد میں۔ يوہيں جنھیں جمعہ نہ ملا وہ بھی بغیر اذان و اقامت ظہر کی نماز تنہا تنہا پڑھیں، جماعت ان کے ليے بھی ممنوع ہے۔ (1) (درمختار) 
    مسئلہ ۵۴: علما فرماتے ہیں جن مسجدوں میں جمعہ نہیں ہوتا، انھيں جمعہ کے دن ظہر کے وقت بند رکھیں۔ (2) (درمختار) 
    مسئلہ ۵۵: گاؤں میں جمعہ کے دن بھی ظہر کی نماز اذان و اقامت کے ساتھ باجماعت پڑھیں۔ (3) (عالمگیری) 
    مسئلہ ۵۶: معذور اگر جمعہ کے دن ظہر پڑھے تو مستحب یہ ہے کہ نماز جمعہ ہو جانے کے بعد پڑھے اور تاخیر نہ کی تو مکروہ ہے۔ (4) (درمختار) 
    مسئلہ ۵۷: جس نے جمعہ کا قعدہ پالیا یا سجدۂ سہو کے بعد شریک ہوا اسے جمعہ مل گیا۔ لہٰذا اپنی دو ہی رکعتیں پوری کرے۔ (5) (عالمگیری وغيرہ) 
    مسئلہ ۵۸: نماز جمعہ کے ليے پیشتر سے جانا اور مسواک کرنا اور اچھے اور سفید کپڑے پہننا اور تیل اور خوشبو لگانا اور پہلی صف میں بیٹھنا مستحب ہے اور غسل سنت۔ (6) (عالمگیری، غنيہ) 
    مسئلہ ۵۹: جب امام خطبہ کے ليے کھڑا ہوا اس وقت سے ختم نماز تک نماز و اذکار اور ہر قسم کا کلام منع ہے، البتہ صاحب ترتیب اپنی قضا نماز پڑھ لے۔ يوہيں جو شخص سنت یا نفل پڑھ رہا ہے جلد جلد پوری کرلے۔ (7) (درمختار) 
    مسئلہ ۶۰: جو چیزیں نماز میں حرام ہیں مثلاً کھانا پینا، سلام و جواب سلام وغیرہ یہ سب خطبہ کی حالت میں بھی حرام ہیں یہاں تک کہ امر بالمعروف، ہاں خطیب امر بالمعروف کر سکتا ہے، جب خطبہ پڑھے تو تمام حاضرین پر سننا اور چپ رہنا فرض ہے، جو لوگ امام سے دور ہوں کہ خطبہ کی آواز ان تک نہیں پہنچتی انھيں بھی چپ رہنا واجب ہے، اگر کسی کو بری بات کرتے
دیکھیں تو ہاتھ یا سر کے اشارے سے منع کر سکتے ہیں زبان سے ناجائز ہے۔ (1) (درمختار)

    مسئلہ ۶۱: خطبہ سننے کی حالت میں دیکھا کہ اندھا کوئيں میں گرا چاہتا ہے یا کسی کو بچّھو وغیرہ کاٹنا چاہتا ہے، تو زبان سے کہہ سکتے ہیں، اگر اشارہ یا دبانے سے بتا سکيں تو اس صورت میں بھی زبان سے کہنے کی اجازت نہیں۔ (2) (درمختار، ردالمحتار) 
    مسئلہ ۶۲: خطیب نے مسلمانوں کے ليے د ُعا کی تو سامعین کو ہاتھ اٹھانا یا آمین کہنا منع ہے، کریں گے گنہگار ہوں گے۔ خطبہ میں دُرُود شریف پڑھتے وقت خطیب کا داہنے بائیں مونھ کرنا بدعت ہے۔ (3) (ردالمحتار) 
    مسئلہ ۶۳: حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا نام پاک خطیب نے لیا تو حاضرین دل میں دُرُود شریف پڑھیں، زبان سے پڑھنے کی اسوقت اجازت نہیں۔ (4) يوہيں صحابۂ  کرام کے ذکر پر اس وقت رضی اللہ تعالیٰ عنہم زبان سے کہنے کی اجازت نہیں۔ (درمختار وغیرہ) 
    مسئلہ ۶۴: خطبۂ جمعہ کے علاوہ اور خطبوں کا سننا بھی واجب ہے، مثلاً خطبۂ عیدین و نکاح وغیرہما۔ (5) (درمختار) 
    مسئلہ ۶۵: پہلی اذان کے ہوتے ہی سعی واجب ہے اور بیع وغیرہ ان چیزوں کا جو سعی کے منافی ہوں چھوڑ دینا واجب یہاں تک کہ راستہ چلتے ہوئے اگر خرید و فروخت کی تو یہ بھی ناجائز اور مسجد میں خرید و فروخت تو سخت گناہ ہے اور کھانا کھارہا تھاکہ اذان جمعہ کی آواز آئی اگر یہ اندیشہ ہو کہ کھائے گا تو جمعہ فوت ہو جائے گا تو کھانا چھوڑ دے اور جمعہ کو جائے،جمعہ کے ليے اطمينان و وقارکے ساتھ جائے۔ (6) (عالمگیری، درمختار) 
    مسئلہ ۶۶: خطیب جب منبر پر بیٹھے تو اس کے سامنے دوبارہ اذان دی جائے۔ (7) (متون) یہ ہم اوپر بیان کر آئے کہ سامنے سے یہ مراد نہیں کہ مسجد کے اندر منبر سے متصل ہو کہ مسجد کے اندر اذان کہنے کو فقہائے کرام مکروہ فرماتے ہیں۔
    مسئلہ ۶۷: اکثر جگہ دیکھا گیا کہ اذان ثانی پست آواز سے کہتے ہیں،یہ نہ چاہيے بلکہ اسے بھی بلند آواز سے کہیں کہ اس سے بھی اعلان مقصود ہے اور جس نے پہلی نہ سُنی اسے سُن کر حاضر ہو۔ (1) (بحر وغیرہ)
    مسئلہ ۶۸: خطبہ ختم ہو جائے تو فوراً اقامت کہی جائے، خطبہ و اقامت کے درمیان دنیا کی بات کرنا مکروہ ہے۔ (2) (درمختار) 
    مسئلہ ۶۹: جس نے خطبہ پڑھا وہی نماز پڑھائے، دوسرا نہ پڑھائے اور اگر دوسرے نے پڑھا دی جب بھی ہو جائے گی جبکہ وہ ماذُون (3) ہو۔ يوہيں اگر نابالغ نے بادشاہ کے حکم سے خطبہ پڑھا اور بالغ نے نماز پڑھائی جائز ہے۔ (4) (درمختار، ردالمحتار)

    مسئلہ ۷۰: نماز جمعہ میں بہتر یہ ہے کہ پہلی رکعت میں سورۂ جمعہ اور دوسری میں سورۂ منافقون یا پہلی میں سَبِّحِ اسْمَ اور دوسری میں ھَلْ اَ تٰکَ پڑھے، مگر ہمیشہ انھيں کو نہ پڑھے کبھی کبھی اور سورتیں بھی پڑھے۔ (5) (ردالمحتار)

    مسئلہ ۷۱: جمعہ کے دن اگر سفر کیا اور زوال سے پہلے آبادی شہر سے باہر ہوگیا تو حرج نہیں ورنہ ممنوع ہے۔ (6) (درمختار وغیرہ) 
    مسئلہ ۷۲: حجامت بنوانا اور ناخن ترشوانا جمعہ کے بعد افضل ہے۔ (7) (درمختار) 
    مسئلہ ۷۳: سوال کرنے والا اگر نمازیوں کے آگے سے گزرتا ہو یا گردنیں پھلانگتا ہو یا بلا ضرورت مانگتا ہو تو سوال بھی ناجائز ہے اور ایسے سائل کو دینا بھی ناجائز۔ (8) (ردالمحتار) بلکہ مسجد میں اپنے ليے مطلقاً سوال کی اجازت نہیں۔ 
    مسئلہ ۷۴: جمعہ کے دن یا رات میں سورۂ کہف کی تلاوت افضل ہے اور زیادہ بزرگی رات میں پڑھنے کی ہے نسائی بيہقی بسند صحیح ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی، کہ فرماتے ہیں: ''جو شخص سورۂ کہف جمعہ کے دن پڑھے، اس کے ليے دونوں
جُمعوں کے درمیان نور روشن ہو گا۔'' (1)



    اور ابو بکر ابن مردویہ کی روایت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ہے کہ فرماتے ہیں: ''جو جمعہ کے دن سورۂ کہف پڑھے اس کے قدم سے آسمان تک نور بلند ہو گا جو قیامت کو اس کے ليے روشن ہو گا اور دو جُمعوں کے درمیان جو گناہ ہوئے ہيں بخش ديے جائیں گے۔'' (3) اس حدیث کی اسناد میں کوئی حرج نہیں۔ حم الدخان پڑھنے کی بھی فضیلت آئی ہے۔

    طبرانی نے ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ حضور (صلی اللہ تعالیٰ عليہ وسلم) نے فرمایا: ''جو شخص جمعہ کے دن یا رات میں حم الدخان پڑھے، اس کے ليے اللہ تعالیٰ جنت میں ایک گھر بنائے گا۔'' (4) اور ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی، کہ ''اس کی مغفرت ہوجائے گی۔'' (5) اور ایک روایت میں ہے، ''جو کسی رات میں حم الدخان پڑھے، اس کے ليے ستر ہزار فرشتے استغفار کریں گے۔'' (6) جمعہ کے دن یا رات میں جو سورۂ يٰس پڑھے، اس کی مغفرت ہو جائے۔'' (7)

    فائدہ: جمعہ کے دن روحیں جمع ہوتی ہیں، لہٰذا اس میں زیارتِ قبور کرنی چاہيے اور اس روز جہنم نہیں بھڑکایا جاتا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

Post a Comment

0 Comments