جمعہ کے فضیلتیں و عظمتیں

تین جمعے سُستی سے چھوڑے اُس کے دل پر مُہر 

اللہ کے مَحْبوب ،دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کافرمانِ عبرت نشان ہے:’’جو شخص تین جُمُعہ (کی نَماز) سُستی کے سبب چھوڑے  اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس کے دل پر مُہر کر د ے گا۔‘‘ (سُنَنِ تِرمِذی ج۲ص۳۸حدیث۵۰۰)
   جُمُعہفرضِ عَین ہے اور اس کی فرضیّت ظہر سے زیادہ مُؤَکَّد(یعنی تاکیدی) ہے اور اس کا منکِر(یعنی انکار کرنے والا) کافِر ہے۔     (دُرِّمُختار ج ۳ص۵، بہارِ شریعت ج۱ص۷۶۲)

جُمُعہ کے عِمامہ کی فضیلت 

سرکارِ مدینہ، سلطانِ باقرینہ ، قرارِ قلب وسینہ ، فیض گنجینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا اِرشادِ رَحمت بنیاد ہے:’’بے شک اللہ تَعَالٰیاور اس کے فرِشتے جُمُعہ کے دن عمامہ با ند ھنے  والوں پر دُرُود بھیجتے ہیں ۔‘‘(مَجْمَعُ الزَّوائِد ج۲ص۳۹۴حدیث۳۰۷۵)     

شِفا داخِل ہوتی ہے 

حضرتِ حمید بن عبدالرحمن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اپنے والِد سے روایت کرتے ہیں کہ 
فرمایا:’’ جو شخص جُمُعہ کے دن اپنے ناخن کاٹتا ہے اللہ تَعَالٰی اُس سے بیماری نکال کرشِفا داخِل کردیتا ہے۔‘‘ (مُصَنَّف ابن اَبی شَیْبہ ج۲ص۶۵)

دس دن تک بلاؤں سے حِفاظت 

صدرُالشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ مولاناامجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیفرماتے ہیں ، حدیثِ پاک میں ہے:جو جُمُعہکے روز ناخن تَرَشوائے اللہ تعالیٰ اُس کو د و سر ے جُمعے تک بلاؤں سے محفوظ رکھے گا اور تین دن زائد یعنی دس دن تک۔ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ جو جُمُعہ کے دن ناخن تَرَشوائے تو رَحمت آ ئے گی گناہ جائیں گے۔  (بہارِ شریعت  حِصَّہ۱۶ ص۲۲۶،دُرِّمُختار ورَدُّالْمُحتار ج۹ ص۶۶۸،۶۶۹) 

 رِزق میں تنگی کا  ایک سبب

صدرُالشَّریعہ، بدرُالطَّریقہ حضرتِ مولانامحمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیفرماتے ہیں : جُمُعہکے دِن ناخن تَرشوانا مُستحب ہے، ہاں اگر زیادہ بڑھ گئے ہوں تو جُمُعہ  کا انتِظار نہ کرے کہ ناخن بڑا ہونا اچّھا نہیں کیوں کہ ناخنوں کا بڑاہونا تنگیٔ رِزق کا سبب ہے۔ (بہارِ شریعت  حِصَّہ۱۶ ص۲۲۵) 

 فِرشتے خوش نصیبوں کے نام لکھتے ہیں 

مصطَفٰے جانِ رحمت ،شمعِ بزمِ ہدایت،نَوشَۂ بزمِ جنَّت،مَنبع جُودوسخاوت، سراپا فضل و رَحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اِرشادِ رَحمت بنیاد ہے:’’جبجُمُعہ کا دن آتاہے تو مسجِد 
کے دروازے پر فِرشتے آ نے والے کو لکھتے ہیں ، جو پہلے آئے اس کو پہلے لکھتے ہیں ، جلدی آنے والا اُس شخص کی طرح ہے جو اللہ  تعالیٰ کی راہ میں ایک اُونٹ صَدَقہ کرتاہے، اوراس کے بعد آنے والا اُس شخص کی طرح ہے جو ایک گائے صَدَقہ کرتاہے، اس کے بعد والا اُس شخص کی مثل ہے جومَینڈھا صَدَقہ کرے، پھر اِس کی مثل ہے جو مُرغی صَدَقہ کرے، پھر اس کی مثل ہے جو اَنڈا صَدَقہ کرے اورجب امام (خطبے کے لیے)بیٹھ جاتاہے تو وہ اعمال ناموں کو لپیٹ لیتے ہیں اورآکر خطبہ سنتے ہیں ۔‘‘ (صَحیح بُخاری ج۱ص۳۱۹حدیث۹۲۹)
مُفسّرِشَہیرحکیمُ الامّت حضرتِ مفتی احمد یا ر خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنَّان  فرماتے ہیں : بعض عُلَماء نے فرمایا کہ ملائکہ جُمُعہ کی طُلُوعِ فَجر سے کھڑے ہوتے ہیں ، بعض کے نزدیک آفتاب چمکنے سے، مگر حق یہ ہے کہ سُورج ڈھلنے (یعنی ابتدائے وقتِ ظہر)سے شُرُوع ہوتے ہیں کیو نکہ اُسی وقت سے وقتِ جُمُعہ شُروع ہوتاہے ،معلوم ہوا کہ وہ فِرِشتے سب آنے والوں کے نام جانتے ہیں ، خیال رہے کہ اگر اوَّلاً سو آدَمی ایک ساتھ مسجِد میں آئیں تو وہ سب اوّل ہیں ۔(مِراٰۃ ج۲ص۳۳۵)

Post a Comment

0 Comments