مسائلِ فقہیّہ

مسائلِ فقہیّہ


    جمعہ فرض عین ہے اور اس کی فرضیّت ظہر سے زیادہ مؤکد ہے اور اس کا منکر کافر ہے۔ (3) (درمختار وغیرہ) 
    مسئلہ ۱: جمعہ پڑھنے کے ليے چھ شرطیں ہیں کہ ان میں سے ایک شرط بھی مفقود ہو تو ہو گا ہی نہیں۔

(۱) مصر یا فنائے مصر


    مصر وہ جگہ ہے جس میں متعدد کُوچے اور بازار ہوں اور وہ ضلع یا پرگنہ (4) ہو کہ اس کے متعلق دیہات گنے جاتے ہوں اور وہاں کوئی حاکم ہو کہ اپنے دبدبہ و سَطوَت کے سبب مظلوم کا انصاف ظالم سے لے سکے یعنی انصاف پر قدرت کافی ہے، اگرچہ ناانصافی کرتا اور بدلہ نہ لیتا ہو اور مصر کے آس پاس کی جگہ جو مصر کی مصلحتوں کے ليے ہو اسے ''فنائے مصر'' کہتے ہیں۔ جیسے قبرستان، گھوڑ دوڑ کا میدان، فوج کے رہنے کی جگہ، کچہریاں، اسٹیشن کہ یہ چیزیں شہر سے باہر ہوں تو فنائے مصر ميں
ان کا شمار ہے اور وہاں جمعہ جائز۔ (1) (غنیہ وغیرہا) لہٰذا جمعہ يا شہر میں پڑھا جائے یا قصبہ میں یا ان کی فنا میں اور گاؤں میں جائز نہیں۔ (2) (غنیہ)

    مسئلہ ۲: جس شہر پر کفار کا تسلط ہوگیا وہاں بھی جمعہ جائز ہے، جب تک دارالاسلام رہے۔ (3) (ردالمحتار) 
    مسئلہ ۳: مصر کے ليے حاکم کا وہاں رہنا ضرور ہے، اگر بطور دورہ وہاں آگیا تو وہ جگہ مصر نہ ہوگی، نہ وہاں جمعہ قائم کیا جائے گا۔ (4) (ردالمحتار) 
    مسئلہ ۴: جو جگہ شہر سے قریب ہے مگر شہر کی ضرورتوں کے ليے نہ ہو اور اس کے اور شہر کے درمیان کھیت وغیرہ فاصل ہو تو وہاں جمعہ جائز نہیں اگرچہ اذان جمعہ کی آواز وہاں تک پہنچتی ہو۔ (5) (عالمگیری) مگر اکثر آئمہ کہتے ہیں کہ اگر اذان کی آواز پہنچتی ہو تو ان لوگوں پر جمعہ پڑھنا فرض ہے بلکہ بعض نے تو یہ فرمایا کہ اگر شہر سے دور جگہ ہو مگر بلا تکلیف واپس باہر جاسکتا ہو تو جمعہ پڑھنا فرض ہے۔ (6) (درمختار) لہٰذا جو لوگ شہر کے قریب گاؤں میں رہتے ہیں انھيں چاہيے کہ شہر میں آکر جمعہ پڑھ جائیں۔ 
    مسئلہ ۵: گاؤں کا رہنے والے شہر میں آیا اور جمعہ کے دن یہیں رہنے کا ارادہ ہے تو جمعہ فرض ہے اور اسی دن واپسی کا ارادہ ہو، زوال سے پہلے یا بعد تو فرض نہیں، مگرپڑھے تو مستحقِ ثواب ہے۔ يوہيں مسافر شہر میں آیا اور نیت اقامت نہ کی تو جمعہ فرض نہیں، گاؤں والا جمعہ کے ليے شہر کو آیا اور کوئی دوسرا کام بھی مقصود ہے تو اس سعی (یعنی جمعہ کے ليے آنے) کا بھی ثواب پائے گا اور جمعہ پڑھا تو جمعہ کا بھی۔ (7) (عالمگیری، درمختار، ردالمحتار) 
    مسئلہ ۶: حج کے دنوں میں منیٰ میں جمعہ پڑھا جائے گا جبکہ خلیفہ یا امیر حجاز یعنی شريف مکّہ وہاں موجود ہو اور امیر موسم یعنی وہ کہ حاجیوں کے ليے حاکم بنایا گیا ہے جمعہ نہیں قائم کر سکتا۔ حج کے علاوہ اور دنوں میں منیٰ میں جمعہ نہیں ہوسکتا اور عرفات

میں مطلقاً نہیں ہو سکتا، نہ حج کے زمانہ میں، نہ اور دنوں میں۔ (1) (عالمگیری)

    مسئلہ ۷: شہر میں متعدد جگہ جمعہ ہو سکتا ہے، خواہ وہ شہر چھوٹا ہو یا بڑا اور جمعہ دو مسجدوں میں ہو یا زیادہ۔ (2) (درمختار وغیرہ) مگر بلا ضرورت بہت سی جگہ جمعہ قائم نہ کیا جائے کہ جمعہ شعائر اسلام سے ہے اور جامع جماعات ہے اور بہت سی مسجدوں میں ہونے سے وہ شوکت اسلامی باقی نہیں رہتی جو اجتماع میں ہوتی، نیز دفع حرج کے ليے تعدد جائز رکھا گیا ہے تو خواہ مخواہ جماعت پراگندہ کرنا اور محلہ محلہ جمعہ قائم کرنا نہ چاہيے۔ نیز ایک بہت ضروری امر جس کی طرف عوام کو بالکل توجہ نہیں، یہ ہے کہ جمعہ کو اور نمازوں کی طرح سمجھ رکھا ہے کہ جس نے چاہا نیا جمعہ قائم کر لیا اور جس نے چاہا پڑھا دیا یہ ناجائز ہے، اس ليے کہ جمعہ قائم کرنا بادشاہِ اسلام یا اس کے نائب کا کام ہے، اس کا بیان آگے آتا ہے اور جہاں اسلامی سلطنت نہ ہو وہاں جو سب سے بڑا فقیہ سُنی صحیح العقیدہ ہو، احکام شرعیہ جاری کرنے میں سُلطان اسلام کے قائم مقام ہے، لہٰذا وہی جمعہ قائم کرے بغیر اس کی اجازت کے نہیں ہوسکتا اور یہ بھی نہ ہو تو عام لوگ جس کو امام بنائیں، عالم کے ہوتے ہوئے عوام بطور خود کسی کو امام نہیں بنا سکتے نہ یہ ہو سکتا ہے کہ دو چار شخص کسی کو امام مقرر کر لیں ایسا جمعہ کہیں سے ثابت نہیں۔ 
    مسئلہ ۸: ظہراحتیاطی (کہ جمعہ کے بعد چار رکعت نماز اس نیت سے کہ سب ميں پچھلی ظہر جس کا وقت پایا اور نہ پڑھی) خاص لوگوں کے ليے ہے جن کو فرض جمعہ ادا ہونے ميں شک نہ ہو اور عوام کہ اگر ظہر احتیاطی پڑھیں تو جمعہ کے ادا ہونے میں انھيں شک ہو گا وہ نہ پڑھیں اور اس کی چاروں رکعتیں بھری پڑھی جائیں اور بہتر یہ ہے کہ جمعہ کی پچھلی چار سنتیں پڑھ کر ظہر احتیاطی پڑھیں پھر دو سنتیں اور ان چھ سنتوں میں سنت وقت کی نیت کریں۔ (3) (عالمگیری، صغیری، ردالمحتار وغیرہا)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔۔۔۔۔۔ ''غنیۃ المتملي ''، فصل في صلاۃ الجمعۃ، ص۵۴۹ ۔ ۵۵۱، وغیرہا. 
2۔۔۔۔۔۔ ''غنیۃ المتملي ''، فصل في صلاۃ الجمعۃ، ص۵۴۹. 
3۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، مطلب في جواز استنابۃ الخطيب، ج۳، ص۱۶. 
4۔۔۔۔۔۔ ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج۳، ص۷. 
5۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ، ج۱، ص۱۴۵. 
6۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج۳، ص۳۰. 
7۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ، ج۱، ص۱۴۵. 
و ''الدرالمختار'' و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، مطلب في حکم المرقی بين يدی الخطيب، ج۳، ص۴۴.

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ، ج۱، ص۱۴۵. 
2۔۔۔۔۔۔ ''الدرالمختار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، ج۳، ص۱۸، و ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۸، ص۳۱۲. 
3 ۔۔۔۔۔۔ ''الفتاوی الھندیۃ''، کتاب الصلاۃ، الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ، ج۱، ص۱۴۵. 
و ''صغيری ''، فصل في صلاۃ الجمعۃ، ص۲۷۸، و ''ردالمحتار''، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ، مطلب في نیۃ آخر ظھر بعد صلاۃ الجمعۃ، ج۳، ص۲۱، و ''الفتاوی الرضویۃ''، ج۸، ص۲۹۳. 

Post a Comment

0 Comments